Sunday, December 3, 2017

کالی مرچ کے فوائد


دنیا میں کوئی بھی چیز رائیگاں نہیں ہے ہر چیز میں اﷲ تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی افادیت ضرور رکھی ہے اسی طرح کالی مرچ جو دیکھنے میں ایک چھوٹا سا دانہ لگتا ہے لیکن قدرت نے اس میں ہمارے لئے کئی فائدے چھپا رکھے ہیں۔ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد آپ کو کالی مرچ کے فوائد سے آشنائی ہو جائے گی۔
کالی مرچ کو مصالحوں کی ملکہ کہا جاتا ہے کالی مرچ کو آپ اپنے سٹور میں کئی سال تک محفوظ رکھ سکتے ہیں اس میں کیمیائی مرکبات ہونے کی وجہ سے اسے نہ ہی جانور کھاتے ہیں اور نہ ہی اس کو کسی قسم کا نقصان پہنچتا ہے۔
کالی مرچ پہاڑوں اور اونچی چٹانوں پر اگتی ہے یہ ایک بیل نما پودا ہوتا ہے اس کی بیل چار میٹر لمبی ہوتی ہے جس پر چوڑے اور نوکدار پتے لگتے ہیں اور اس پر کالے رنگ کا پھل لگتا ہے اسی لئے اس کو کالی مرچ کے نام سے پکارا جاتا ہے جبکہ انگریزی میں اس کو Black Pepper کہتے ہیں اور اس کا نباتاتی نام Nigrum Piper ہے ۔
100
گرام کالی مرچ میں وٹامن اے 10%,وٹامن سی 35%،وٹامن ای 30%،سوڈیم 3%،پوٹاشیم 27%،کیلشیم 44%،آئرن 360%،فاسفورس 25%،زنک 13% اور میگنیشیم 48.5% موجود ہے۔ ایشیا میں زیادہ تر لوگ سبز اور سرخ مرچ کا استعمال کرتے ہیں لیکن یورپ میں کالی مرچ کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے۔
اس پر لگنے والے پھول بہت خوبصورت ہوتے ہیں اس لئے اس کو باغوں میں بھی لگایا جاتا ہے۔اس پر لگنے والے پھول پہلے سبز اور پھر سرخ ہوجاتے ہیں اور یہ انگوروں کے گچھے کی طرح لگتے ہیں جب ان کو خشک کیا جاتا ہے تو یہ سیاہ ہو جاتے ہیں۔اگر اس کا چھلکا اتارا جائے تو یہ سفید بیج کی شکل میں نکل آتی ہے ۔کالی مرچ کا استعمال ثابت یا پیس کر بھی کیا جاتا ہے۔دونوں حالتوں میں اس کی افادیت برقرار رہتی ہے ۔
کالی مرچ ایک بہترین آکسیڈنٹ اور اینٹی بیکٹریل ہے۔ کالی مرچ ویت نام،بھارت،سری لنکا،جاپان،کوریا،تھائی لینڈ،چائنا،برازیل اور انڈونیشیا میں کاشت کی جاتی ہے اور انہی ممالک سے یورپ میں برآمد کی جاتی ہے۔ کالی مرچ کا ستعمال ہر گھر اور ہوٹل میں کیا جاتا ہے یہ نہ صرف کھانوں کو لذیذ بناتی ہے بلکہ ہماری صحت کی بھی ضامن ہے اس مضمون میں میں آپ کو کالی مرچ کی خصوصیات اور فوائد سے متعلق بتانے کی کوشش کروں گا۔
کالی مرچ کی خصوصیات
اس کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے استعمال کرنے والے کا ہاضمہ اور معدہ تندرست رہتا ہے ۔اس کا استعمال کرنے والا ڈائیریا اور قبض جیسی موذی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔کالی مرچ کے استعمال سے خواتین چھاتی کے کینسر سے بچ سکتی ہیں۔چھاتی کے کینسر کا مرض اب ہمارے ملک میں بڑھتا جا رہا ہے۔اس کے استعمال سے جلد کے مردہ خلیات کو تقویت ملتی ہے۔
کالی مرچ کے فوائد
٭کالی مرچ جسم میں گرمی پیدا کرتی ہے۔
٭کالی مرچ کے استعمال سے حافظہ قوی ہوتا ہے۔
٭ کالی مرچ بھوک کو بڑھاتی ہے۔
٭کالی مرچ پیشاب آور ہے۔
٭کالی مرچ کے استعمال سے خواتین میں حیض کا خون جاری ہو جاتا ہے۔
٭برص اور کوڑھ کے مرض میں اس کا استعمال فائدہ مند رہتا ہے۔
٭حلق میں سوزش ہو تو بھی مفید ہے۔
٭قبض سے نجات مل جاتی ہے۔
٭کالی مرچ کے استعمال سے موٹاپا نہیں ہوتا۔
٭آنتوں کے لئے مفید ہے۔
٭پیٹ میں گیس بننے کے عمل کو روکتی ہے۔
٭کالی مرچ کے استعمال سے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں۔
٭کالی مرچ ہمارے پٹھوں ،جگر اور معدہ کو طاقت دیتی ہے۔
٭دمہ اور کھانسی کے مرض میں کھانا مفید ہے۔
٭دماغی بیماریوں میں فائدہ مند ہے۔
٭کالی مرچ کے استعمال سے سینے کے درد سے نجات ملتی ہے۔
٭کھٹی ڈکاریں نہیں آتیں۔
٭ نزلہ و زکام سے نجات دلاتا ہے۔
٭دانتو ں کو نہ صرف مضبوط کرتا ہے بلکہ دانتوں کے درد میں بھی مفید ہے۔
٭کالی مرچ ذہنی دباؤ کو کم کرنے میں مددگار ہے۔
٭الزائمر کے مریضوں کے لئے فائدہ مند ہے۔
٭یاداشت کی بہتری کے لئے اس کا استعمال کریں۔
٭کیڑے مکوڑوں کے کاٹنے پر ہونے والے انفیکش کے خلاف مزاحمت کرتی ہے۔
٭بلغم کا اخراج کرتی ہے۔
٭پھیپھڑوں کے امراض میں مفید ہے۔
٭نوبتی بخاروں میں اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔
٭سرد زہروں کے اثرات کو زائل کرتی ہے۔
٭قوت باہ میں اضافہ کرتی ہے۔
کالی مرچ کے تیل کی افادیت
٭درد سے نجات مل جاتا ہے۔٭پسینہ آتا ہے۔٭ہاضمہ کے لئے مفید ہے۔٭اعصابی دردوں میں فائدہ مند ہے۔٭جوڑوں کے دردوں میں مفید ہے۔٭جلد کی صحت کے لئے اس کا استعمال فائدہ مند ہے۔٭تھوک کو بڑھاتا ہے۔٭بھوک کی کمی کو دور کرتا ہے۔
نوٹ
ایسے افراد جن کو گردوں کا کوئی مرض لاحق ہو وہ کالی مرچ کے استعمال سے پرہیز رکھیں۔اس کے علاوہ گرم مزاج والے افراد بھی سیاہ مرچ کا استعمال کم سے کم کریں۔


Sunday, June 18, 2017

عورت کے جسم کے حساس حصے


جنسی لحاظ سے مرد اور عورت کے جسم کے کچھ حصے ایسے ہوتے ہیں جن کو چھونے سے وہ جنسی طورپر مشتعل ہوتے ہوجاتے ہیں ۔
بفر       Clitoris      
یہ جنسی  لحاظ سے عورت کے جسم کا حساس ترین حصّہ  ہے لیکن کچھ  عورتوں میں  فرج Vagina بفر سے زیادہ حساس ہو سکتی ہے- یہ عورت کی فرج میں جہاں اوپر والے ہونٹ ملتے ہیں اس کے اندر موجود ہوتا ہےاور  یہ مٹر کے دانے کے برابر ہوتا ہے- اسے چھونے سے عورت کا جنسی ہیجان بہت بڑھ جاتا ہے- کچھ عورتیں اسے چھو کر ہی جنسی تسکین حاصل کرتی ہیں- مباشرت کے دوران مرد بیوی کے بزر کو پیار سے چھو کر اس کے لطف و سرور میں اضافہ کر سکتا ہے ۔ اس کے چھونے سے عورت کا جنسی ہیجان اس کی انتہا پر ہوتا ہے اس سے مرد اپنی بیوی کا دل بھی جیت سکتا ہے عورت اسی مرد کو پسند کرتی ہے جو اسے جنسی لحاظ سے مطمئن رکھ سکے- جب بزر کو مسلسل پیار بھرے انداز سے چھوتے رہنے کے بعد عورت لذ ت کی انتہا کو چھو لیتی ہے تو بزر اکڑ جاتا ہے تا ہم جب عورت تسکین حاصل کر لیتی ہے تو پھر بفر ڈھیلا پر جاتا ہے تب بفر کو نہیں چھونا چاہیے ورنہ اس سے بیوی کو تکلیف پہنچے گی- 

بفر کیونکہ فرج سےتھوڑا اندر کی طرف فاصلے پر ہوتا ہے اس لیے اس کو اپنے ذکر penis سے مباشرت کے درمیان مشتعل نہیں کیا جا سکتا اس لیے اسے انگلی سے ہی فور پلے ( دخول سے پہلے پیار بھری چھیڑ چھاڑ ) کے دوران چھوا جانا چاہیے- عورت کی ٹانگیں کھول کر اس کی فرج کے باہری ہونٹوں کو ہٹا کر با آسانی بزر کو دیکھا جا سکتا ہے- 

جی سپاٹ               G spot 
اگر نظردوڑائی جائےتو بزر کے بعد عورت کا جنسی لحاظ سے سب سے حساس حصّہ جی سپاٹ ہوتا ہے- اسے 1950 میں دریافت کیا گیا تھا- اگر بزر کی سیدھ میں انگلی فرج میں داخل کی جائے تو فرج کی اوپر والی دیوار میں جی سپاٹ مل جائے گا لیکن مختلف عورتوں میں جی سپاٹ کی جگہ مختلف ہوتی ہے اسے آسانی سے تلاش کی جا سکتا ہے اگر اس طریقے سے جی سپاٹ نہ ملے تو انگلی تو اسی طرح فرج میں داخل کر کے ایک انچ دائیں یا باہیں گھمانے سے جی سپاٹ مل جائے گا- اسے مشتعل کرنے سے عورت زبردست آرگےزم حاصل کرتی ہے یہ چھوٹے لوبیے کی شکل کا ہوتا ہے لیکن اسے چھونے سے جب عورت جنسی عروج حاصل کرتی ہے  تو اس کا سائز دو گنا ہو جاتا ہے- تا ہم ہر عورت کے جی سپاٹ کے سائز اور مقام میں فرق ہوتا ہے اسے چھو کر مشتعل کرنے سے عورت کو ایک تیز جھٹکا لگتا ہے اور وہ  سوج جاتی ہے- 
اس سے عورت کو پیشاب کی خواھش ہوتی ہے لیکن اگر عورت مکمل لطف حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کے اس سے پہلے ہی  پیشاب کر لے تا کے بھرپور لطف حاصل ہو سکے- 
لیکن ایک بار جی سپاٹ کو چھونے کے بعد جاری رکھا جائے تو 2 سے 3 منٹ میں عورت جنسی تسکین حاصل کر سکتی ہے جسے عورتوں کی Masturbation بھی کہا جا سکتا ہے- 55 فیصد عورتیں اس جی سپاٹ کی جنسی تسکین سے پانی خارج کرتی ہیں اور 20 فیصد ہمیشہ خارج کرتی ہیں یہ بے رنگ ہوتا ہے تا ہم اخراج کے ساتھ اور اخراج کے بغیر لطف میں معمولی سا ہی فرق ہوتا ہے- 80 فیصد عورتیں اسے جنسی لحاظ سے بہت ہی حساس حصّہ قرار دیتی ہیں- ایک سروے میں 66 فیصد عورتوں نے بتایا  کے وہ اپنے اس مقام سے آگاہ ہیں لیکن ہمارے ہاں 99 فیصد لوگ اس جی سپاٹ سے آگاہ نہیں ہیں- ہر عورت جی سپاٹ کے اشتعال سے جنسی تسکین حاصل کرتی ہے ۔ مباشرت کے درمیان جی سپاٹ تک  پہنچنا کوئی مشکل نہیں ہے لیکن اس کے لیے پیچھے سے دخول کرنا پڑے گا یعنی Dogy style میں مباشرت کرنے سے مرد آسانی سے گی سپاٹ تک پہنچ سکتا ہے- لیکن اگر ایسا نہ ہو تو عورت خود penis کو پکڑ کر اپنے جی سپاٹ کو مشتعل کروا سکتی ہے - مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ عورت کو خود اپنے جی سپاٹ کی جگہ کا بارے میں پتا ہو-

اسے تلاش کرنے کے لیے آپ ایک پر سکوں جگہ کا انتخاب کریں جیسا کے اپنے کمرے کا یا باتھ روم کا جہا ںاور کوئی نہ ہو  اپنے نیچے والے کپڑے اتار لیں اور پیٹھ کے بل بیٹھ جایئں اپنے گٹھنے کھڑے کر لیں اور ٹانگیں کھول لیں اب بزر کی سیدھ میں اپنی انگلی فرج میں داخل کریں فرج کی اوپر والی دیوار کو ٹچ کریں اور ایک انچ تک دائیں سے بائیں انگلی کو گھما کر دیکھیں آپ کو جی سپاٹ مل جاے گا اسے پیار سے رگڑیں جی سپاٹ اپنے سائز سے دو گنا برا ہو جائے گا تب آپ کو پیشاب کی خواھش ہو گی لیکن اگر آپ رگڑنا جاری رکھیں گی تو دو سے تین منٹ بعد پانی کے اخراج کے ساتھ آپ جنسی تسکین حاصل کر لیں گی- اگر آپ رگڑنا جاری رکھیں تو دو سے تین دفع بھی جنسی تسکین حاصل کر سکتی ہیں- 

فرج    Vagina  
 تیسرے نمبر پر عورت کا حساس حصّہ اس کی فرج یعنی Vagina ہے ساری فرج جنسی لحاظ سے حساس نہیں ہوتی بلکہ داخلی راستے کے پہلے دو انچ ہی حساس ہوتے ہیں- اور فرج سے زیادہ فرج کے لبوں کے دائیں بائیں والی حصّے زیادہ حساس هوتے ہیں- 
پستان  Breasts 
 عورت کے پستان بھی جنسی لحاظ سے حساس هوتے ہیں کچھ عورتیں صرف پستانوں کے اشتعال سے بھی جنسی تسکین حاصل کر لیتی ہیں لیکن ایسی عورتوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے- عورت کی چھاتیوں کے ابھار یعنی بریسٹ کا سایز برا چھوٹا بھی ہو سکتا ہے لیکن  اس بات کا ان کے جنسی لطف و لذّت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا عام طور پر چھوٹے بریسٹ برے بریسٹ کی نسبت زیادہ حساس ہوتے ہیں اور ویسے بھی یہ جنس مخالف کے لیے بہت کشش رکھتے ہیں- بریسٹ میں نیپلز جنسی لہٰذ سے بہت ہی حساس ہوتے ہیں اور یہ فورا ہی عورت میں جنسی ہیجان پیدا کر دیتا ہے- جنسی ہیجان میں نیپلز تن جاتے ہیں لیکن دودھ پلانے والی  عورتوں میں ایسا نہیں ہوتا- اور ایک بہت ہی دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں نیپلز میں سے ایک زیادہ حساس ہوتا ہے عورت کو اس چیز کا علم ہونا چاہیے تا کے وہ جنسی لطف کے حصول کے لیے اپنے خاوند کو بتا سکے- 

سرین  Buttocks    
جنسی لحاظ سے یہ حصّے بھی حساس ہیں جنسی لحاظ سے یہ حصّہ بھی حساس ہوتا ہے اس کا چھیڑنا اسے مشتعل کرنا اور دبانا عورت کو بہت پسند ہوتا ہے ویسے بھی یہ دیکھنے میں بہت خوبصورت ہوتے ہیں کچھ مرد صرف اسے دیکھنے یا چھونے سے ہی جنسی طور پر مشتعل ہو جاتے ہیں- 
اس کے علاوہ عورتوں کے  جسم کے مندرجہ ذیل حصے بھی بہت حساس ہوتے ہیں
ناف اور اس کے ارد گرد کا حصّہ ، ناف کے نیچے جہاں بال ہوتے ہیں ، رانیں اور ان کا  اندرونی حصّہ ، گٹھنوں کا پچھلا حصّہ، ہونٹ ، گردن ، گال منہ کا اندرونی حصّہ کان کی لویں اور ان کا پچھلا حصّہ ہاتھوں کی انگلیاں اور جلد وغیرہ 


Wednesday, May 24, 2017

امیر خسرو کا بیٹی کو عصمت و عفت کا درس

امیر خسرو کا بیٹی کو عصمت و عفت کا درس


یہ مکتوب اشعار کی شکل میں ہے جن کا ترجمہ درج ذیل ہے۔
"اے بیٹی تیرا وجود میرے دل کا چشم و چراغ ہے اور میرے دل کے باغ میں کوئی اور میوہ تجھ سے بہتر نہیں۔ اگرچہ تیرے بھائی بھی تیری طرح خوش بخت ہیں مگر جہاں تک میری نظر کا تعلق ہے وہ تجھ سے بہتر نہیں۔
باغبان جب باغ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتا ہے تو اس کے نزدیک سرو کی بھی وہی قدر ہوتی ہے جو سوسن کی ہوتی ہے۔ تیرا نصیب جس نے تجھے نیک فال بتایا، اسی نے تیرا نام مستورہ میمون (نیک بخت و عصمت مآب خاتون) رکھ دیا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اس نے تیرے انداز طبیعت کو پہلے سے دیکھا تو میری شرم و حیا اور پاکدامنی کو زیادہ سے زیادہ پایا۔ مجھے امید ہے کہ اس خوش بختی و نیک فالی کے باعث تیرے نام کو تیرے کردار سے چار چاند لگ جائیں گے۔
لیکن تجھے بھی کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے نیک انجام سے اپنے اس نام کی بنیاد کو صحیح ثابت کرے۔ عمر کے اعتبار سے تیرا یہ ساتواں سال ہے جب تو سترہ سال کی ہوجائے گی تو ان باتوں کو سمجھ سکے گی۔
جب تو اس عمر کو پہنچے گی تو میری ان نصیحتوں پر عمل کرکے اپنی نیک نامی سے مجھے بھی سر بلند کرے گی۔ اس طرح زندگی بسر کر کہ تیرے شاندار کارناموں سے تیرے قرابت داروں کا نام بھی روشن ہو۔
جس موتی کی طرف بزرگ توجہ مبذول کرتے ہیں، اس کے طفیل میں اس کے والدین یعنی سیپی کو بھی یاد کر لیتے ہیں۔ بہتر ہے کہ اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کے لیے تو اپنی نقل و حرکت کو اپنے دامن کی حدود میں منحصر کر دے۔
تاکہ تیرا دامن شکوہ و وقار بھی جگہ سے اسی طرح نہ ہلے جس طرح دامن کوہ پتھر سے جدا نہیں ہوتا۔ اگر تیرا وقار ایک بھاری پتھر کی طرح تیرے دامن کا لنگر ہے تو یقیناً تیرا دامن تیری عصمت کا محافظ ہے۔
وہ عورت جس کا گھر سے نکلنا آسان ہو جاتا ہے وہ گھر کے اندر سب سے خوف زدہ رہتی ہے۔ جو عورت گلستان و لالہ زار میں ٹہلتی پھرتی ہے وہ اپنا گریبان گل کی نذر کر دیتی ہے اور دامن خار کو بخش دیتی ہے۔
جب اس کی نظر گل سرخ پر پڑتی ہے تو پھول کی ہنسی یہ تقاضا کرتی ہے کہ شراب پینی چاہیے۔ تو اپنے چہرہ سے نمائش باطل کا غازہ دھو ڈال اور یہ کوشش کر کہ تو غازہ ہی کے بغیر سرخرو ہو جائے۔
تاکہ صدق و صواب کی شہرت عامہ، تیری اس سرخروہی کی وجہ سے، تجھے حمیرا (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لقب کا مخفف) کا خطاب عطا کر دے۔ جو عورت راحت و آرام سے بے پروا رہی اس کا ویران گھر آباد ہو گیا۔
جو عورت لذت شراب کی رو میں بہہ کر پستی کے اندر چلی گئی، اس کا گھر خرابات بن گیا اور وہ خود بھی خراب ہوئی۔ جب اس کی شریف ذات شراب سے آلودہ ہو گئی تو درودیوار سے دشمن اندر گھس آئے گا۔
اگر بند کمرے میں بھی شراب کا دور چلے تو اس کی بو پڑوسیوں کو یہ پیغام پہنچا دیتی ہے کہ یہاں شراب پی جا رہی ہے۔ کسی عورت کا ایک چھوٹا سا آنچل جو وہ اپنی نشت گاہ میں بیٹھ کر بطور نقاب ڈال دیتی ہے ان فقہیوں کی پوری دو پگڑیوں سے بہتر ہے جو فسق و فجور میں مست ہیں۔
جلوہ گری یہ نہیں کہ ایک پری چہرہ حسینہ زن و شوہر کے تعلقات میں جلوہ گر ہو۔ جلوہ گری اس عورت کا حصہ ہے جو شرم و حیا اور خوف خدا کے باعث لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہونے کے باوجود اپنے اعلیٰ کردار کے لیے مشہور ہے۔
تو سورج کی طرح اپنے آپ کو اجالوں میں چھپا لے اور شرم و حیا کو رخسار کا پردہ بنا۔ جس نے حیا کا نقاب اتار کر پھینک دیا اس سے کوئی امید نہ رکھو کیونکہ اس کی عزت و آبرو پر پانی پھر گیا۔
جو مرد اس کی عریانی کے لیے کوشش کرتا ہے، وہ اس کو برہنہ کرنے کے بعد پھر اس کی پردہ پوشی کیا کرے گا؟ وہ آوارہ گرد جو بغیر کچھ کیے ہوئے ڈینگیں مارتا ہے، جب کوئی گناہ کر لے گا تو اسے کس طرح ظاہر نہ کرے گا۔
برے لوگوں کی یہ رسم ہے کہ جب کوئی برا کام کرتے ہیں تو اس کی شہرت کو اپنے لیے بڑائی سمجھتے ہیں۔ ہر بننے ٹھننے والی عورت جو نمائش حسن کے درپے ہوتی ہے، دس پردوں کے اندر بھی اپنی رسوائی کا سامان مہیا کر لیتی ہے۔
جب کوئی بری عورت تباہی کی طرف رخ ملتی ہے تو اس کی صورت اس کے فسق و فجور کی گواہی دینے لگتی ہے۔ عورت کے لیے فراخ حوصلگی و سخاوت زیب نہیں دیتی، البتہ اگر مرد میں یہ اوصاف نہ ہوں تو وہ عورت بن جاتا ہے۔
لیکن اتنی بد مزاج بھی نہ بن کہ تیری خادمائیں تجھ سے بھاگ کر باہر گلی میں چلی جائیں۔ ایسا گھر جس میں آرام و آسائش کم میسر ہو اگر اپنے ساز و سامان کے اعتبار سے بہشت بھی ہو تو جہنم کے مترادف ہو جاتا ہے۔
اس شوہر کو جس کی بیوی دراز ہو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک وحشی کتے کے ساتھ بند کر دیا گیا ہے۔ جو شوہر دولت و ثروت رکھتا ہے، اس کی بیوی خود گھر کے اندر سونے میں پیلی ہوتی ہے۔
لیکن جب کسی شوہر کے پاس پونجی نہ ہو تو اس کی بیوی کے لیے قناعت سے بہتر کوئی زیور نہیں ہے۔ نفس، جو انسان کے قالب میں سرایت کیے ہوئے ہے، انسان دشمن ہونے کے باوجود اس کے تن بدن میں موجود ہے۔
یہ نفس نہیں چاہتا کہ جس دل کو دنیا کا عیش حاصل ہے، وہ عقبیٰ کی فکر میں پڑ جائے اس لیے جہاں تک ہو سکے اس نفس کی رسی دراز نہ ہونے دے۔ یہ ساری مصیبت جو تن پر آتی ہے اس نظر کی بدولت آتی ہے جو توبہ کو توڑ کر گناہ پر مائل کرتی ہے۔
جس طرح موتی سیپ کے اندر چھپا ہوا ہوتا ہے اسی طرح اپنی آنکھ کو شرم و حیا میں چھپا لے تاکہ تو تیر بلا کا نشانہ نہ بنے۔ جب آنکھ مائل ہوتی ہے تو دل قابو سے باہر ہو جاتا ہے اور نظر کا ہاتھ دل کے ڈورے کھینچنے لگتا ہے۔
وہ عورت، جسے حق تعالیٰ نے خودداری کا جذبہ دیا ہے، جان دے دیتی ہے مگر تن کو فسق و فجور میں مبتلا نہیں ہونے دیتی۔
ایک بادشاہ اپنے اونچے محل کی چھت پر کھڑا ہوا، ادھر ادھر نظر ڈال رہا تھا۔ اس نے محل کے دیوار کے پیچھے ایک حسینہ کو دیکھا جو اپنے حسن سے اس زمانہ کے تمام حسینوں کو مات کرتی تھی۔
جیسے ہی بادشاہ نے اسے دیکھا، بے چین ہو گیا اور اس کے صبر و قرار کی بنیاد اپنی جگہ سے مل گئی۔ فوراً ایک پیغامبر کو اس کے پاس بھیجا تاکہ اسے بلا کر اس پر دست درازی کرے۔
اس حسینہ نے اپنی پاک دامنی کی بنا پر اپنے وقار کو عصمت کا پردہ بنا لیا اور چھپ گئی۔ پہلے تو ایک عرصہ تک در پردہ گفتگو ہوتی رہی مگر چاہنے والے کی مقصد براری نہ ہوئی۔
جب بادشاہ کا دل ہوس سے ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تو اس نے کھل کر بات کی اور یہ خوف دلایا کہ میں جان سے مار ڈالوں گا۔ خادم کو حکم دیا کہ اسے اپنے گھر سے باہر گھسیٹ کر، بالوں سے کھینچتا ہوا، بادشاہ کی خواب گاہ میں لے آئے۔
(جب وہ حسینہ آئی تو) اس نے کہا کہ " اے فرمانروائے وقت، بادشاہوں کو فقیروں سے کیا واسطہ ہے۔ میرے جسم میں ایسی کون سی چیز ہے جو تیری آنکھوں کو بھا گئی ہے اور جسے تونے اپنے جذبہ دل سے مجبور ہو کر عزیز بنا لیا ہے۔
بادشاہ نے اپنی آرزو مند آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا۔" تیری دونوں آنکھوں نے مجھ سے میری نیند چھین لی ہے۔"
وہ خوش جمال حسینہ اندر کی طرف ایک کونے میں چلی گئی اور انگلی سے اپنی دونوں آنکھیں باہر نکال لیں۔ اور خادم کو وہ دونوں آنکھیں دے کر کہا۔" جا انہیں لے جا اور امیر سے کہہ دے کہ میری جو چیز تجھے عزیز تھی اسے تھام۔"
خادم نے جو یہ کیفیت بادشاہ پر ظاہر کی تو اس کے دل میں آگ لگ گئی اور اس کی سوزش سے دھواں بھر گیا۔ اپنے کرتوت پر شرمندہ ہو کر بیٹھ رہا اور اس حسینہ کا پاک دامن اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیا۔
اے بیٹی تو خسرو کی آنکھ کا نور ہے تو بھی اسی طرح اپنی عصمت پر صابر و مستقیم رہ۔

اردو نصیحت آموز تحریریں

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امام حسن رضی اللہ عنہ کو ایک طویل مکتوب میں وصیتیں


اسلام کے بنیادی عقائد پر مبنی اخلاق و عادات کا جو خاکہ اس مکتوب میں پیش کیا گیا ہے، اس میں اصلاح اعمال و تعمیر کردار کا کوئی گوشہ باقی نہیں چھوڑا گیا۔ فرماتے ہیں۔ "دل شکستہ، بے بس، بیزار دنیا، مسافر عدم آباد، کہن سال پدر کی وصیت۔۔۔۔۔ کم سن آرزو، راہروراہ مرگ، ہدف امراض، اسیر دنیا، تاجر غرور، مقروض اجل، قیدی موت، حلیف تردد، نشانہ آفات، مغلوب نفس، جانشین اموات، نوخیز فرزند کے نام! فرزند! زمانہ کی گردش، دنیا کی بے وفائی، آخرت کی نزدیکی نے مجھے ہر طرف سے غافل کرکے صرف آنے والی زندگی کے اندیشوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ اب مجھے صرف اپنی فکر ہے۔ تمام نشیب و فراز پیش نظر ہیں، بے نقاب حقیقت آنکھوں کے سامنے ہے۔ سچا معاملہ روبرو ہے۔ اسی لیے میں نے یہ وصیت تیرے لیے لکھی ہے۔ خواہ تیرے لیے زندہ رہوں یا فنا ہو جاؤں، کیونکہ مجھ میں اور تجھ میں کوئی فرق نہیں۔ تو میری جان ہے، میری روح ہے، تجھ پر آفت آئے گی تو مجھ پر پہلے آئے گی۔ تیری موت میری موت ہوگی۔ فرزند! (میں تجھے وصیت کرتا ہوں) خدا سے خوف کر، اس کے حکم پر کاربند ہو، اس کے ذکر سے قلب کو آباد کر، اس کی رسی کو مضبوطی سے تھام، کیونکہ اس رشتے سے زیادہ مستحکم کوئی رشتہ نہیں جو تجھ میں اور تیرے خدا میں موجود ہے، بشرطیکہ تو خیال کرے۔ فرزند! دل کو موعظت سے زندہ کر، زہد سے مار، یقین سے قوت دے، حکمت سے روشن کر، موت کی یاد سے اس پر قابو پا، فانی ہونے کا اس سے اقرار لے، مصائب یاد دلا کے اسے ہوشیار بنا، زمانے کی نیرنگیوں سے اسے ڈرا، بچھڑ جانے والی حکایتیں اسے سنا، گزرے ہوؤں کی تباہی سے اسے عبرت دلا۔ ان کی اجڑی ہوئی بستیوں میں گشت کر۔ ان کی عمارتوں کے کھنڈر دیکھ اور دل سے سوال کر کہ ان لوگوں نے کیا کیا؟ کہاں چلے گئے؟ کدھر رخصت ہو گئے؟ کہاں جا کے آباد ہوئے؟
ایسا کرنے سے تجھے معلوم ہو جائے گا کہ وہ اپنے دوست احباب سے جدا ہو گئے، ویرانوں میں جا بسے اور تو بھی بس دیکھتے دیکھتے انہیں جیسا ہو جائے گا، لہذا اپنی جگہ درست کر لے۔ آخرت کو دنیا کے بدلے نہ بیچ، بے علمی کی حالت میں بولنا چھوڑ دے، بے ضرورت گفتگو سے پرہیز کر، جس راہ میں بھٹک جانے کا اندیشہ ہو اس سے باز رہ، کیونکہ قدم کا روک لینا، ہولناکیوں میں پھنسنے سے بہتر ہے۔ تو نیکی کی تبلیغ کرے گا تو نیکوں میں سے ہو جائے گا۔ برائی کو اپنے ہاتھ سے اور اپنی زبان سے برا ثابت کر۔ بروں سے الگ رہ، خدا کی راہ میں جہاد کر، جیسا حق ہے جہاد کرنے کا، خدا کے معاملے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہ ڈر، حق کے لیے مصائب کے طوفان میں پھاند پڑ، دین میں تفقہ حاصل کر، مکروہات کی برداشت کا عادی بن، کیونکہ برداشت کی قوت بہترین قوت ہے۔ سب کاموں میں اپنے لیے خدا کی پناہ تلاش کر، اس طرح تو مضبوط جائے پناہ اور غیر مسخر قلعہ میں پہنچ جائے گا۔ خدا سے دعا کرنے میں کسی کو شریک نہ کر، کیونکہ بخشش و عطا سب خدا ہی کے ہاتھ میں ہے۔ استخارہ زیادہ کر، میری یہ وصیت خوب سمجھ لے۔ اس سے روگردانی نہ کرنا۔ وہی بات ٹھیک ہوتی ہے جو مفید ہوتی ہے۔ بے فائدہ علم بے کار اور اس کی طلب ناروا ہے۔ فرزند! جب میں نے دیکھا کہ آخر عمر کو پہنچ گیا ہوں اور ضعف بڑھتا جاتا ہے تو یہ وصیت لکھنے میں مجھے جلدی کرنی پڑی۔ میں ڈرا کہ کہیں وصیت سے پہلے ہی مجھے موت نہ آجائے یا جسم کی طرح عقل بھی کمزور پڑ جائے یا تجھ پر نفس کا غلبہ ہو جائے یا دنیاوی فکریں تجھے گھیر لیں اور تو سرکش گھوڑے کی طرح قابو سے باہر ہو جائے۔ نوعمروں کا دل زمین کی طرح ہوتا ہے جو ہر بیج کو قبول کر لیتی ہے۔ اسی خیال سے میں نے وصیت لکھنے میں جلدی کی تاکہ دل کے سخت ہونے اور ذہن کے دوسری طرف لگ جانے سے پہلے ہی تو اس معاملے کو سمجھ لے جس کے تجربے اور تحقیق سے اگلوں نے تجھے بے نیاز کر دیا ہے اور اس کی راہ کی تگ و دو اور تجربے کی تلخیوں سے تجھے بچا لیا ہے۔ وہ چیز تیرے پاس بلا کلفت پہنچ رہی ہے جس کی جستجو میں ہمیں خود نکلنا پڑا تھا، اب وہ سب تیرے سامنے آ رہا ہے جو شاید ہماری نگاہوں سے بھی اوجھل رہ گیا ہو۔
فرزند! میری عمر تو اتنی دراز نہیں جتنی اگلوں کی ہوا کرتی تھی تاہم میں نے ان کی زندگی پر غور، ان کے حالات پر تفکر کیا ہے۔ ان کے پیچھے بحث و جستجو میں نکلا ہوں، حتیٰ کہ اب میں انہیں میں سے ایک فرد ہو چکا ہوں بلکہ ان کے حالات سے حد درجہ واقف ہونے کی وجہ سے گویا ان کا اور ان کے بزرگوں کا ہم سن بن گیا ہوں۔ اسی طرح یہاں کا شیریں و تلخ، سفید و سیاہ، سود و زیاں، سب مجھ پر کھل گیا ہے۔ ان سب میں سے میں نے تیرے لیے ہر اچھی بات چن لی ہے۔ ہر خوشنما چیز منتخب کر لی ہے، ہر بری اور غیر ضروری بات تجھ سے دور رکھی ہے اور چونکہ مجھے تیرا ویسا ہی خیال ہے جیسا کے شفیق باپ کو بیٹے کا ہوتا ہے اس لیے میں نے چاہا ہے یہ وصیت ایسی حالت میں ہو کہ تو ابھی کم عمر ہے، دنیا میں نووارد ہے، تیرا دل سلیم ہے، نفس پاک ہے۔ پہلے میں نے ارادہ کیا تھا کہ تجھے صرف کتاب اللہ اور اس کی تفسیر کی شریعت اور اس کے احکام حلال و حرام کی تعلیم دوں گا۔ پھر خوف ہوا مبادا تجھے بھی اسی طرح شکوک و شبہات گھیر لیں، جس طرح لوگوں کو نفس پروری کی وجہ سے گھیر چکے ہیں۔ لہذا میں نے یہ وصیت ضروری سمجھی۔ یہ تجھ پر شاق ہو سکتی ہے لیکن میں نے اسے پسند کر لیا اور گوارہ نہ کیا کہ ایسی راہ میں تجھے تنہا چھوڑ دوں جس میں ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ امید ہے خدا میری وصیت کے ذریعے تجھے ہدایت دے گا اور سیدھی راہ کی طرف تیری رہنمائی فرمائے گا۔ فرزند! تیری جس بات سے میں خوش ہوں گا، وہ یہ ہے کہ تو خدا سے خوف کرے، اس کی فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی نہ کرے، اپنے اسلاف اور خاندان کے پاک بزرگوں کی راہ پر گامزن ہو، کیونکہ جس طرح آج تو اپنے آپ کو دیکھتا ہے، اسی طرح کل وہ بھی اپنے آپ کو دیکھتے تھے اور جس طرح تو غور کرتا ہے، وہ بھی غور کرتے تھے۔ آخر تجربوں نے انہیں مجبور کر دیا کہ وہ سیدھی راہ پر آجائیں اور فضول باتوں سے پرہیز کریں لیکن اگر تیری طبیعت یہ قبول نہ کرے اور انہی کی طرح بذاتِ خود تجربہ کرنے پر مصر ہو تو بسم اللہ۔ تجربہ شروع کر، مگر عقل و دانائی کے ساتھ، شبہوں اور بحث میں بے عقلی سے الجھ کر نہیں اور اس سے پہلے کہ یہ کام تو شروع کرے، اپنے خدا سے مدد کا خواستگار ہو، اس کی توفیق کا طالب ہو اور ہر قسم کے شبہات سے پرہیز کر، کیونکہ شبہات تجھے حیرت و گمراہی میں ڈال دیں گے اور جب تجھے یقین ہو جائے کہ قلب صاف ہو کر قبضے میں آ گیا ہے، عقل پختہ ہو کر جم گئی ہے اور ذہن میں یکسوئی پیدا ہو چکی ہے تو اس وقت اس وادی میں قدم رکھ، ورنہ تیرے لیے یہ راہ تاریک ہوگی اور تو اس میں بھٹکتا پھرے گا، حالانکہ طالب دین کو نہ بھٹکنا چاہیے نہ حیرت میں پڑنا چاہیے، ایسی حالت میں طالب دین کے لیے اس راہ سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔
فرزند! میری وصیت خوب سمجھ اور جان لے کہ جس کے ہاتھ میں موت ہے اسی کے ہاتھ میں زندگی بھی ہے۔ جو پیدا کرنے والا ہے، وہی مارنے والا بھی ہے، جو فنا کرتا ہے وہی حیات نو بھی بخشتا ہے اور جو مصیبت میں ڈال کر امتحان لیتا ہے وہی نجات بھی دیتا ہے۔ یقین کر، دنیا کا قیام اللہ کے اس ٹھہرائے ہوئے قانون پر ہے کہ انسان کو نعمتیں بھی ملتی ہیں اور ابتلا و آزمائش بھی پیش آتی ہے، پھر آخرت میں آخری جزا دی جاتی ہے جس کا ہمیں علم نہیں۔ اگر کوئی بات تیری سمجھ میں نہ آئے تو انکار نہ کر بلکہ اسے اپنے کم سمجھی پر محمول کرکے غور کر، کیونکہ اول اول تو نہ جاننے والا ہی پیدا ہوا تھا۔ پھر بتدریج علم حاصل ہوا اور ابھی نہیں معلوم کتنی باتیں ہیں جن سے تو لاعلم ہے، ان میں تیری عقل حیران رہ جاتی ہے اور بصیرت کام نہیں دیتی، لیکن بعد چندے ان کا علم تجھے ہو جاتا ہے، پس تیری وابستگی اسی ذات سے ہو جس نے تجھے پیدا کیا، رزق دیا ہے اور تیری خلقت پوری کی ہے۔ اسی کے لیے تیری عبادت ہو، اسی کے روبرو تیرا سر جھکے، اسی سے تیری خشیت ہو۔ فرزند! خدا کی بابت کسی نے ایسی تعلیم نہیں دی جیسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اپنا رہنما بنا اور نجات کے لیے انہیں کو رہبر تصور کر۔ میں نے تجھے نصیحت کرنے میں کوتاہی نہیں کی اور یقین کر کہ اپنی بھلائی کے لیے تو کتنا ہی غور کرے، میرے برابر غور نہ کر سکے گا۔ فرزند! اگر تیرے پروردگار کا کوئی شریک ہوتا تو اس کے بھی رسول آتے، اس کی سلطنت و حکومت کے بھی آثار دکھائی دیتے، اس کے افعال و اعمال بھی ظاہر ہوتے، مگر نہیں وہ اللہ تو ایک ہی ہے جیسا کہ خود اس نے اپنے بارے میں فرما دیا ہے۔ اس کی حکومت میں کوئی شریک نہیں، ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گا، سب سے اول ہے مگر خود اس کی ابتداء نہیں، سب سے آخر ہے مگر خود اس کی انتہا نہیں، اس کی شان اس سے کہیں زیادہ بلند ہے کہ قلب کے تصور اور اجر کے ادراک پر اس کی ربوبیت موقوف ہو۔ پس تیرا عمل ویسا ہو جیسا اس شخص کا ہوتا ہے جس کی حیثیت چھوٹی ہے، مقدرت کم ہے اور اپنے پروردگار کی طرف اس کی اطاعت کی جستجو میں ، اس کی عقوبت کی دہشت میں اور اس کے غضب کے خوف میں، جس کی محتاجی بہت بڑی ہے۔ یاد رکھ، تیرے پروردگار نے تجھے اچھی باتوں کا حکم دیا ہے اور صرف برائیوں سے منع کیا ہے۔
فرزند! میں نے تجھے دنیا کا نقشہ دکھا دیا ہے۔ اس کی حالت بتا دی ہے، اس کے ناپائیدار اور ہرجائی ہونے کی خبر سنا دی ہے۔ آخرت کی حالت بھی تیرے پیش نظر کر دی ہے اور اس کی لذت و نعم کی خبر بھی دے دی ہے۔ میں نے مثالیں دے کر سمجھایا ہے تاکہ تو عبرت حاصل کرے اور ان پر عمل پیرا ہو۔ جن لوگوں نے دنیا کو پرکھ لیا ہے، اس کی جدائی سے گھبراتے نہیں، ان کی مثال ایسے مسافروں کی ہے جو ناموافق اور قحط زدہ علاقے کو چھوڑ کر سرسبز اور زرخیز علاقے کی طرف روانہ ہوئے ہیں۔ یہ مسافر راہ کی تکلیفیں برداشت کرتے ہیں، احباب کی جدائی گوارہ کرتے ہین، سفر کی مشقتیں اٹھاتے ہیں، خوراک کی خرابی سہتے ہیں تاکہ کشادہ اور آرام دہ مقام تک جائیں، کسی تکلیف کو تکلیف نہیں سمجھتے، کسی خرچ سے جی نہیں چراتے، ان کے لیے ہر وہ قدم جو منزل مقصود کی طرف بڑھتا ہے، سب سے زیادہ پسندیدہ ہوتا ہے لیکن جو لوگ دنیا سے چمٹے ہوئے ہیں، اس کی جدائی برداشت نہیں کرسکتے، ان کی مثال اس مسافر جیسی ہے جو سرسبز و شاداب زمین چھوڑ کر قحط زدہ زمین کی طرف چلا ہے۔ اس کے لیے یہ سفر بدترین اور خوفناک سفر ہوگا، اصلی مقام کی جدائی اور نئے مقام پر آمد کو بھیانک مصیبت سمجھے گا۔ فرزند! اپنے اور دوسرے کے درمیان خود اپنی ذات کو میزان بنا۔ جو بات تجھے اپنے لیے پسند ہے، وہی ان کے لیے بھی پسند کر اور جو بات خود اپنے لیے نا پسند کرتا ہے، وہ ان کے حق میں بھی نا پسند کر، کسی پر ظلم نہ کر، کیونکہ دوسرے کا ظلم تو اپنے آپ پر نہیں چاہتا۔ سب کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آ، جس طرح تیری خواہش ہے کہ وہ تجھ سے پیش آئیں۔ لوگوں کی جو باتیں ناپسند ہوں وہ اپنے لیے بھی نا پسند کر، اگر لوگ تجھ سے وہی برتاؤ کریں جو تو ان سے کرتا ہے، تو اسے ٹھیک سمجھ، بغیر علم کے کچھ نہ کہہ، اگرچہ تیرا علم کتنا ہی کم ہو اور ایسی بات کسی کے حق میں ہرگز نہ کہہ جو خود تو اپنے لیے سننا نہیں چاہتا، خود پسندی حماقت ہے اور نفس کے لیے ہلاکت لہذا سلامت روی سے اپنی راہ طے کر۔ دوسروں کے لیے خزانچی (بخیل) نہ بن اور جب تجھے خدا سے روشنی مل جائے تو تیرا تمام تر خوف صرف اپنے پروردگار سے ہو۔ فرزند! تیرے سامنے ایک دور دراز، دشوار گزار سفر درپیش ہے، اس سفر میں حسن طلب کی بڑی ضرورت ہے، اس سفر میں تیرا زاد راہ ضرورت سے زیادہ نہ ہونے پائے کیونکہ اگر تو طاقت سے زیادہ بوجھ اپنی پیٹھ پر اٹھا کے چلے گا تو تیرے لیے وبال جان بن جائے گا، لہذا اگر بھوکے مزدور تیرا زاد راہ قیامت تک کے لیے اٹھانے کو مل رہے ہوں تو انہیں غنیمت جان اور اپنا بوجھ ان پر رکھ دے تاکہ کل ضرورت پر یہ توشہ تجھے کام دے۔ مقدرت کی حالت میں تیرا توشہ بار ہو جانا چاہیے کہ مبادا ضرورت آ گھیرے اور تو کچھ نہ پائے۔ دولت مندی کے زمانہ میں اگر کوئی قرض مانگے تو فوراً دے دے تاکہ ناداری کے زمانے میں وہ تجھے واپس مل جائے۔
فرزند! میرے سامنے ایک کھٹن گھاٹی ہے، اس گھاٹی میں ایک ہلکا پھلکا آدمی بوجھل آدمی سے بہتر ہے اور سست رفتار تیز رفتار سے بدتر ہے۔ تیرا اس گھاٹی سے گزرنا لازمی ہے، اس کے بعد جنت ہے یا دوزخ، لہذا آخری منزل پر پہنچنے سے پہلے اپنا پیش خیمہ بھیج دے اور قیام سے پہلے ہی جگہ ٹھیک کر لے، کیونکہ مر جانے کے بعد نہ معذرت ممکن ہوگی نہ دنیا کی طرف واپسی۔ یقین کر، جس کے تصرف میں زمین و آسمان کے خزانے ہیں اس نے مانگنے کی اجازت دے دی ہے اور قبول کرنے کا وعدہ فرما لیا ہے۔ اس نے کہا "مانگ" مل جائے گا، رحم کی التجا کر، رحم کیا جائے گا، اس نے اپنے اور تیرے درمیان حاجب کھڑے نہیں کئے جو تجھے اس کے حضور پہنچنے سے روکیں، نہ سفارش ہی کا تجھے محتاج بنایا ہے جو اس کے سامنے تیری سفارش کریں، تیری توبہ ٹوٹ جاتی ہے تو بھی تجھے محروم نہ کرتا ہے، نہ تجھ سے انتقام لیتا ہے اور جب تو دوبارہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ نہ تجھ پر طعنہ زن ہوتا ہے، نہ تیری پردہ داری کرتا ہے حالانکہ تو اس کا مستحق ہوتا ہے، وہ توبہ کے قبول کرنے میں حجت نہیں کرتا۔ اپنی رحمت سے مایوس ہونے نہیں دیتا بلکہ اس نے توبہ کو نیکی قرار دیا ہے۔ ایک بدی کو وہ بزرگ و برتر ایک ہی گنتا ہے مگر ایک نیکی کو دس شمار کرتا ہے۔ اس نے توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے۔ وہ تیری پکار سنتا ہے، تیری مناجات پر کان دھرتا ہے، تو اس سے مرادیں مانگتا ہے، دل کی حالت بیان کرتا ہے، اپنی بپتا سناتا ہے، اپنی مصیبتوں کی فریاد کرتا ہے، اپنی مشکلوں میں مدد مانگتا ہے تو اس کی عمر کی درازی، جسم کی تندرستی، رزق کی کشادگی چاہتا ہے اور اس کی رحمت کے ایسے ایسے خزانے طلب کرتا ہے جو اس کے سوا کوئی اور نہیں دے سکتا۔ غور کر اس نے طلب کی اجازت دے کر اپنی رحمت کے خزانوں کی کنجیاں تیرے حوالے کردی ہیں۔ تو جب چاہے دعا کرکے اس کی نعمتوں کے دروازے کھلوا لے، رحمتوں کا مینہ، برسوا لے لیکن اگر اجابت دعا میں اس لیے دیر ہوتی ہے کہ سائل کو زیادہ ثواب ملے، امیدوار کو زیادہ بخشش دی جائے، ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی مانگتا ہے اور محروم رہتا ہے مگر جلد یا بدیر طلب سے زیادہ اسے دے دیا جاتا ہے یا پھر محرومی ہی اس کے حق میں بہتر ہوتی ہے۔ نہیں معلوم کتنی مرادیں ایسی ہیں کہ اگر پوری ہو جائیں تو انسان کی عاقبت ہی برباد ہو جائے پس تیری دعا انہی باتوں کے لیے ہو جو تیرے لیے سود مند ہیں اور جو نقصان دہ ہیں، وہ دور رہیں، سن لے، مال و دولت بڑی چیز ہیں، مال تیرے لیے ہے، تو مال کے لیے نہیں ہے۔
فرزند! تو آخرت کے لیے پیدا ہوا ہے نہ کہ دنیا کے لیے، فنا کے لیے بنا ہے نہ کہ بقا کے لیے، تو ایک ایسے مقام میں ہے جو ڈانواں ڈول ہے اور تیاری کرنے کی جگہ یہ محض آخرت کا راستہ ہے۔ موت تیرے تعاقب میں لگی ہوئی ہے، تو لاکھ بھاگے بچ نہیں سکتا۔ ایک نہ ایک دن تجھے شکار ہو جانا ہی ہے لہذا ہوشیار رہ کہ موت ایسی حالت میں نہ آجائے کہ تو ابھی توبہ و انابت کی فکر ہی میں ہو اور وہ درمیان میں حائل ہو جائے، ایسا ہوا تو بس تونے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالا۔ فرزند! موت پر، اپنے عمل پر، اور موت کے بعد کی حالت پر ہمیشہ تیرا دھیان رہے تاکہ جب اس کا پیام پہنچے تو تیرا سب کچھ پہلے سے ٹھیک ٹھاک ہو اور تجھے اچانک اس پیام کو نہ سننا پڑے۔ فرزند! دنیا میں دنیا داروں کی محویت اور اس کی طلب میں ان کی مسابقت تجھے فریب نہ دے کیونکہ خدا نے دنیا کی حقیقت کھول دی ہے، خدا ہی نے نہیں خود دنیا ہی نے بھی اپنی فانی ہونے کا اعلان کر دیا ہے، اپنی برائیوں سے نقاب اٹھا دیا ہے۔ دنیا دار تو بھونکنے والے کتے اور پھاڑ کھانے والے درندے ہیں جو ایک دوسرے پر غراتے ہیں، طاقت ور کمزوروں کو کھاتے ہیں، بڑے چھوٹوں کو ہڑپ کر جاتے ہیں، ان میں کچھ تو بندھے ہوئے اونٹ ہیں جو نقصان کرنے سے مجبور ہیں اور کچھ چھٹے ہوئے اونٹ میں جو ہر طرح کا نقصان کرتے پھرتے ہیں۔ ان کی عقل گم ہے، انجان راستوں پر پڑے ہوئے ہیں۔ مصائب کی نا ہموار وادیوں میں بلائیں اور آفتیں چرنے کے لیے چھوڑ دئیے گئے ہیں، نہ کوئی ان کا گلہ بان ہے نہ رکھوالا، دنیا انہیں تاریک گزرگاہوں میں لے گئی ہے۔ روشنی کے مینار ان کی آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں۔ دنیا کی بھول بھلیوں میں پھنس گئے ہیں، ان کی لذتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، انہوں نے اسی کو اپنا رب بنا لیا ہے، وہ ان کے ساتھ کھیل رہی ہے اور وہ اس کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ افسوس انہوں نے آنے والی زندگی بالکل فراموش کردی ہے۔ عنقریب تاریکی چھٹ جائے گی اور قافلہ منزل پر پہنچ جائے گا۔ لیل و نہار کے مرکب پر جو سوار ہے وہ تو برابر رواں دواں ہی ہے، چاہے کسی جگہ کھڑا ہی کیوں نہ ہو، مسافر ہے، گو بآرام کہیں مقیم ہی کیوں نہ ہو۔ فرزند! تو اپنی سب امیدوں میں کامیاب ہو نہیں سکتا۔ زندگی سے زیادہ جی نہیں سکتا۔ تو بھی اسی راستے پر چلا جا رہا ہے جس پر تجھ سے پہلے لوگ جا چکے ہیں، لہذا اپنی طلب میں اعتدال مدنظر رکھ، کمائی میں سلامت روی سے تجاوز نہ کر، یاد رکھ کوئی طلب ایسی ہوتی ہے جو حرماں نصیبی کی طرف لے جاتی ہے، نہ ہر مانگنے والے کو ملتا ہے، نہ ہر خوددار محروم رہتا ہے۔ ہر قسم کی ذلت سے بچنا چاہیے وہ کیسی ہی مرغوبات کی طرف لے جانے والی ہو، کیونکہ عزت کا معاوضہ تجھے کبھی مل ہی نہیں سکتا۔ دوسروں کا غلام نہ بن کیونکہ خدا نے تجھے آزاد پیدا کیا ہے وہ بھلائی، بھلائی نہیں جو برائی سے آئے، وہ دولت، دولت نہیں جو ذلت کی راہ سے حاصل ہو۔ خبردار، خبردار! تجھے حرص و ہوس ہلاکت کے گھاٹ پر لے جائے، جہاں تک ممکن ہو اپنے اور خدا کے درمیان کسی کا احسان نہ آنے دے کیونکہ تجھے تیرا حصہ بہرحال مل کر رہے گا۔ خدا کا دیا ہوا تھوڑا، مخلوق کے دئیے ہوئے بہت سے کہیں زیادہ ہے اور شریفانہ بھی، اگرچہ مخلوق کے پاس بھی جو کچھ ہے خدا ہی کا دیا ہوا ہے۔ خاموشی کی وجہ سے جو خرابی پیدا ہوتی ہے اس کا تدارک آسان ہے، مگر گفتگو سے جو خرابی پیدا ہوتی ہے، اس کا تدارک مشکل ہے، کیا تونے نہیں دیکھا کہ مشک کا منہ باندھ کر ہی پانی روکا جاتا ہے؟ اپنا مال خرچ نہ کرنا، دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے کہیں اچھا ہے۔ مایوسی کی تلخی، سوال کرنے سے بہتر ہے اور آبرو کے ساتھ محنت مزدوری، بدکاری کی دولت سے بہتر ہے، آدمی اپنا راز خود ہی خوب چھپا سکتا ہے۔ کبھی آدمی اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار لیتا ہے، جو زیادہ بولتا ہے، زیادہ غلطی کرتا ہے۔
نیکوں کی صحبت اختیار کرو، نیک ہو جاؤ گے، بدوں کی صحبت سے پرہیز کرو، بدی سے دور ہو جاؤ گے، حرام کھانا بدترین کھانا ہے۔ کمزور پر ظلم کرنا سب سے بڑا ظلم ہے۔ جب نرمی سختی بن جائے تو سختی نرمی بن جاتی ہے، کبھی دوا بیماری ہو جاتی ہے اور بیماری دوا۔ کبھی بدخواہ خیر خواہی کر جاتا ہے اور خیر خواہ بدخواہی، موہوم امیدوں پر تکیہ نہ کرو، کیونکہ یہ مردوں کا سرمایہ ہیں، تجربے یاد رکھنے کا نام عقل ہے۔ بہترین تجربہ وہ ہے جو نصیحت آموز ہو، موقع سے فائدہ اٹھاؤ اس سے پہلے کہ وہ تمہارے خلاف ہو جائے، ہر کوشش کرنے والا کامیاب نہیں ہوتا۔ ہر جانے والا واپس نہیں آیا، مال کا ضائع کرنا اور عاقبت کا بگاڑنا فساد عظیم ہے، انسان کی قسمت مقدر ہوچکی ہے جو کچھ تیرے نوشہت تقدیر میں ہے، جلد یا بدیر سامنے آ جائے گا۔ تاجر ایک لحاظ سے قمار باز ہوتا ہے، کبھی قلت میں کثرت سے زیادہ برکت ہوتی ہے۔ توہین کرنے والے مددگار اور سوء ظن رکھنے والے دوست میں ذرا بھلائی نہیں۔ جب تک زمانہ ساتھ دے زمانے کا ساتھ دو، حرص تجھے اندھا نہ کردے اور عداوت تجھے بے عقل نہ بنانے پائے۔ دوست دوستی توڑے تو تم اسے جوڑ دو، وہ دوری اختیار کرے تو تم نزدیک ہو جاؤ، وہ سختی کرے تو تم نرمی کرو، وہ غلطی کرے تو تم اس کے لیے عذر تلاش کرو، دوست کے ساتھ ایسا برتاؤ کرو، گویا تم غلام ہو اور وہ آقا لیکن خبردار یہ برتاؤ اپنے محل نہ ہو، نا اہل کے ساتھ نہ رہو، دوست کے دشمن کو دوست نہ بناؤ ورنہ دوست بھی دشمن ہو جائے گا، دوست کو بے لاگ نصیحت کرو، اچھی لگے یا بری لگے، غصہ پی جایا کرو، میں نے غصے کے جام سے زیادہ میٹھا جام نہیں دیکھا۔ جو تم سے سختی کرے تم اس سے نرمی کرو، خود بخود نرم پڑ جائے گا۔ دوستی کاٹنا ضروری ہی ہو تو بھی کچھ نہ کچھ لگاؤ باقی رکھو، تاکہ جب چاہو دوستی کو جوڑ سکو۔ جو تم سے حسن ظن رکھے اس کے حسن ظن کو جھوٹا نہ ہونے دو۔ دوست کے حقوق اس گھمنڈ میں تلف نہ کرو کہ دوست ہے کیونکہ جس کے حقوق تلف کردئیے جاتے ہیں وہ دوست نہیں رہتا۔ ایسے نہ ہو جاؤ کہ تمہارا خاندان ہی تمہارے ہاتھوں سب سے زیادہ بدبخت بن جائے۔ جو کوئی بے پروائی ظاہر کرے، اس کی طرف نہ جھکو، دوست دوستی توڑنے میں اور تم دوستی جوڑنے میں برابر ہو، تمہارا پلا ہمیشہ بھاری رہے۔ نیکی سے زیادہ بدی میں تیز نہ ہو۔ فرزند! ظالم کے ظلم سے تنگ دل نہ ہو، کیونکہ وہ خود اپنا نقصان اور تمہارا نفع کر رہا ہے۔ جو تمہیں خوش کرے اس کا صلہ یہ نہیں کہ تم اسے رنج پہنچاؤ۔ فرزند! رزق دو قسم کا ہوتا ہے، ایک وہ جس کی تو جستجو کرتا ہے، دوسرا وہ جو تیری جستجو کرتا ہے، پس اگر تو جستجو چھوڑ دے تو رزق خود ہی تیرے پاس آ جائے گا۔ دنیا میں تیرا حصہ بس اتنا ہے، جتنے سے تو عاقبت درست کر سکے۔ اگر تو اس چیز پر رنج کرتا ہے جو تیرے ہاتھ سے نکل گئی ہے تو ہر اس چیز پر رنج کر جو تیرے ہاتھ میں نہیں آئی۔ آئندہ کو گزشتہ سے غیر سمجھ۔ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جا جن پر نصیحت نہیں، ملامت اثر کرتی ہے، دانا آدمی معمولی تادیب سے مان جاتا ہے مگر چوپایہ مار سے باز آتا ہے۔ خواہشوں اور دل کے وسوسوں کو صبر و یقین کی عزیمتوں سے زائل کرو، جو کوئی راہِ اعتدال سے تجاویز کرتا ہے، بدراہ ہو جاتا ہے، دوست رشتہ دار کی طرح ہے، سچا دوست وہی ہے جو پیٹھ پیچھے حق دوستی ادا کرے۔ نفس کی خواہشوں اور بدبختیوں میں ساجھا ہے۔ کتنے اپنے ہیں جو غیروں سے زیادہ غیر ہیں اور کتنے غیر ہیں جو اپنوں سے زیادہ عزیز ہیں۔ پردیسی وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں۔
جس نے راہ حق چھوڑ دی اس کا راستہ تنگ ہے۔ جو اپنی حیثیت پر رہتا ہے اس کی عزت باقی رہتی ہے۔ سب سے زیادہ مضبوط تعلق وہ ہے جو آدمی اور خدا کے مابین ہے جو کوئی تیری پرواہ نہیں کرتا وہ تیرا دشمن ہے، جب امید میں موت ہو تو نا امیدی زندگی بن جاتی ہے۔ نہ ہر عیب ظاہر ہوتا ہے، نہ ہر موقع سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، کبھی آنکھوں والا ٹھوکر کھا جاتا ہے اور اندھا سیدھی راہ چلا جاتا ہے، بدی کو خود سے دور رکھو کیونکہ جب چاہو گے لوٹ آئے گی، احمق سے دوستی گانٹھنا عقلمند سے دوستی جوڑنے کے برابر نہیں ہے۔ جو دنیا پر بھروسا کرتا ہے، دنیا اس سے بے وفائی کر جاتی ہے اور جو دنیا کو بڑھاتا ہے، دنیا اسے گرا دیتی ہے۔ ہر تیر نشانے پر نہیں بیٹھتا۔ جب حاکم بدلتا ہے تو زمانہ بھی بدل جاتا ہے۔ سفر سے پہلے سفر کے ساتھیوں کو دیکھ لو۔ ٹھہرنے سے پہلے پڑوسیوں کی جانچ کر لو۔ خبردار! تمہاری گفتگو میں ہنسانے والی کوئی بات نہ ہو، اگرچہ کسی دوسرے کا مقولہ ہی کیوں نہ ہو۔ خبردار! عورتوں سے مشورہ نہ کرنا کیونکہ ان کی عقل کمزور ہوتی ہے اور ارادہ ضعیف، پردے میں بٹھا کر ان کی نگاہوں کی حفاظت کرو۔ بداطوار لوگوں کی ان میں آمدورفت ان کے بے پردہ رہنے سے زیادہ خطرناک ہے۔ حتی الوسیع اپنے سوا کسی سے انہیں مطلب نہ رکھنے دو۔ عورت کو اس کی ذات کے سوا کسی بات میں خودمختار نہ ہونے دو کیونکہ عورت پھول ہے، جلاد نہیں۔ عورت کو لوگوں کی سفارش کرنے کا عادی نہ بناؤ۔ بے جا رقابت ظاہر نہ کر کیونکہ اس سے پاکباز اور بے لاگ عورت کی بھی رہنمائی برائی کی طرف ہوتی ہے۔ اپنے نوکروں میں سے ہر ایک کے ذمہ کوئی نہ کوئی کام رکھو تاکہ وہ تمہاری خدمت کو ایک دوسرے پر نہ ٹالیں۔ اپنے کنبے کی عزت کرو کیونکہ وہ تمہارا بازو ہے، جس سے اڑتے ہو، بنیاد ہے جس پر ٹھہرتے ہو، ہاتھ ہے جسے لڑتے ہو۔ فرزند! میں تیری دنیا و عقبیٰ خدا کے سپرد کرتا ہوں اور دونوں جہاں میں اس ذات برتر سے تیرے لیے فلاح و بہبود کی دعا کرتا ہوں۔
والسلام

Sunday, May 21, 2017

دیسی ویاگرا | ویاگرا کا استعمال | How to make viagra at home


ہیرے کی ساخت جیسی نیلے رنگ کی ویاگرا گولی جنسی قوت بڑھانے کا ایک انقلابی علاج بھی ہے۔
ویاگرا کو پندرہ سال قبل متعارف کرایا گیا تھا اور امریکی تاریخ میں تیزی سے فروخت ہونے والی دوا بن گئی۔
اس وقت چند ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اس دوا کو تجویز کر کر کے ان کے بازوں اکٹر گئے ہیں۔
لیکن اب ویاگرا بنانے والی کمپنی فائزر کے حقوق یا پیٹنٹ ختم ہو گئے ہیں اور اب ادویات بنانے والی دوسری کمپنیاں ویاگرا میں استعمال ہونے والے کیمیائی مرکب سیلڈنفل سائٹریٹ کے تحت اپنی ادویات تیار اور فروخت کر سکیں گے۔ اس کیمیائی مرکب کو ویاگرا کے نام سے فروخت کیا جاتا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ ویاگرا کی قمیت دس پاؤنڈ فی گولی سے کم کر ایک پاؤنڈ سے بھی کم ہو جائے گی۔
فائزر کو اب بھی امریکہ میں سات سال کے لیے ویاگرا فروخت کرنے کے حقوق حاصل ہیں لیکن یہ برطانیہ میں ویاگرا کی ایک عام قسم متعارف کرا رہی ہے۔
اب  ویاگرا گھر گھر پر بنائیں جس کا کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہے اور 100 فیصد مؤثر بھی ہے ویاگرا بنانے کا طریقہ سیکھنے کیلئے یہ ویڈیو دیکھیں



فائزر نےسیلڈنفل نامی کیمیائی مرکب سائنسدانوں نے کینٹ کے تحقیقاتی مرکز میں تیار کیا تھا۔ اس کو تیار کرنے کا مقصد ہائی بلڈ پریشر کا علاج کرنا تھا لیکن تجرباتی مراحل میں ایک غیر متوقع انکشاف ہوا کہ اس دوا کے استعمال سے عضو تناسل میں خون کی گردش بڑھنے سے قوت باہ میں اضافہ ہوتا ہے۔
فٹبال کے مشہور کھلاڑی پیلے کو عضو تناسل کے مسائل کے حوالے سے مہم چلانے کی قیادت دی گئی اگرچہ انہوں نے ایک اخبار کو انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کی جنسی صحت اب بھی بہتر ہے اور انہیں خود گولی کے استعمال کی ضرورت نہیں ہے۔
برطانیہ میں فائزر کے مینجینگ ڈائریکٹر جون ایمس کے مطابق’ ویاگرا نے عضو تناسل کے کھڑا نہ ہونے کے داغ کو ختم کیا اور ایسی پہلی دوا ہے جو مریض دوست ہے‘۔
اس نےمعین عمر تک مردوں کی حوصلہ افزائی کی، جو اپنے معالج کے پاس نہیں جاتے تھے اور ان سے بات نہیں کرتے تھے، اس سے دوسرے مسائل کے نشاندہی اور ان کا علاج ہوا۔ویاگرا اب بھی فائزر کو سالانہ تقریباً دو ارب ڈالر کا کاروبار دیتی ہے اور کمپنی کی فروخت کے لحاظ سے چھٹی بڑی دوا ہے۔
لائیڈز فارمیسی کے آن لائن ڈاکٹر ٹام بریٹ کے مطابق’ فروخت میں اضافہ ہو گا کیونکہ دوا پہلے سے زیادہ سستی ہو جائے گی‘۔'اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی امید ہے کہ غیر قانونی ویب سائٹس کے ذریعے اس کی فروخت میں کمی ہو گی، سینکڑوں کی تعداد میں ویب سائٹس بند ہو چکی ہیں اور گزشتہ سال اڑسٹھ ہزار غیر قانونی گولیوں کو قبضے میں لیا گیا‘۔ ویاگرا زیادہ تر نجی طور پر خریدی جاتی ہے۔ برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس نے ویاگرا کو تجویز کرنے کے لیے ایک سخت معیار مقرر کر رکھا ہے۔
ڈاکٹر ٹام بریٹ کے مطابق یہ ضروری ہے کہ مرد اسے ایک قابل اعتماد ذرائع سے حاصل کریں تاکہ دوا جعلی نہ ہو، اور اگر وہ دوسری ادویات کا استعمال کر رہے ہیں تو انہیں بہتر ہدایات دی جا سکیں۔


Friday, May 19, 2017

بچوں کی تربیت میں سزا اور پیار کا کردار

بچوں کی تربیت میں سزا اور پیار کا کردار
بری صحبت اور عادات کا اثر:بچوں کی تعلیم کے اہم مقاصد میں ایک یہ ہے کہ بچہ بااخلاق اور متمدن شہری ہو اور دوسرا انہیں موزوں پیشے کی تربیت دیکر معاشی ذمہ داریوں کے قابل بنانا۔ تعلیم کا اہم مقصد کیونکہ تہذیب و اخلاق کے زیور سے آراستہ کرنا ہے اگر بچوں کو کسی قسم کی کوئی تعلیم نہ دی جائے تو ان میں جہالت‘ اکھڑپن اور طرح طرح کی بداخلاقیوں کے پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ وہ بچے جو سکول نہیں جاتے اور اپنا سارا وقت گلی کوچوں میں آوارہ پھرتے گزارتے ہیں وہ اکثر بری عادتوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بچپن کی بری صحبت اور بری عادات کا اثر دیرپا ہوتا ہے۔ ایسے بچے بڑے ہوکر 
بھی اپنی عادات تبدیل نہیں کرسکتے۔
 بچوں کی تربیت اور والدین کا کردار
یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ وہ تمام بچے جنہیں تعلیم کے مواقع ملتے ہیں وہ بداخلاقی سے محفوظ رہتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم کے بارے میں ہم کامیاب رہے ہیں یا نہیں اس بات کا جائزہ لینے کیلئے ایک طریقہ یہ ہے کہ بچوں کی عام اخلاقی حالت دیکھی جائے۔ اگر وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں اخلاق کی عام اور ابتدائی اقدار پر پورے اترتے ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم ان کی تعلیم میں کامیاب رہے ہیں اور اگر ہماری تعلیم و تربیت کے باوجود بچے بداخلاقی کے مرتکب ہوتے نظر آرہے ہوں تو یہ امر اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم تعلیم کی صحیح غرض وغایت کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اکثر والدین بچوں کو بااخلاق انسان بنانے میں ناکام ہیں۔ بچوں کے اخلاق و کردار میں تنزل آرہا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ والدین بچوں کی چھوٹی چھوٹی بداخلاقیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں اور اگر کبھی انہیں سمجھانے کا خیال آبھی جائے تو بچے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے اصلاح کا کوئی اثر قبول نہیں کرتے۔ بچے جب گلی محلے میں ہر چھوٹے بڑے کی بے عزتی ہوتے دیکھتے ہیں اور خود اپنے والدین کو بھی باہم لڑتے جھگڑتے اور گالم گلوچ کرتے دیکھتے ہیں تو انہیں بھی ایسی حرکتیں کرنے کا شوق چڑھ آتا ہے۔
 ہم اپنے بچوں کو گلی کوچوں اور بازاروں میں چلنے پھرنے کی تمیز اور آداب سکھانے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے۔ ہمارے لاڈلے گلی کوچوں میں کس بے تکلفی سے گالیاں بکتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ باتوں میں گالی گلوچ کا استعمال معمول بن گیا ہے۔
 بات بات پر گالی دینا گویا یہ بھی ایک فیشن بن گیا ہے۔ بچے تو ایک طرف رہے بڑے بھی گالی گلوچ تفریحاً کرتے ہیں۔ بات کا آغاز بھی گالی اور اختتام بھی گالی سے ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے سکولوں میں بھی بچوں کی حرکات و سکنات میں بداخلاقی کا عنصر بڑھتا جارہا ہے۔ جماعت میں شرارتیں کرنا اور استاد سے گستاخی سے پیش آنے کا مرض عام ہے۔ ساتھیوں سے لڑنا‘ جھگڑنا‘ بے تکلفی سے جھوٹ بولنا اور درو دیواروں پر فحش باتیں لکھنا عام مشغلے ہیں۔
 والدین گھر میںمعلم کا مقام رکھتے ہیں:گھر‘ گلی اور سکول میں بچوں کی بداخلاقیوں کے عام مظاہرے اس امر کا ثبوت ہیں کہ ہماری تعلیم‘ اخلاق اور کردار سنوارنے میں ناکام رہی ہے۔ والدین گھر میں تعلیم معلم کا مقام رکھتے ہیں۔ اگر وہ اخلاق و کردار کو قابل قدر تصور کرتے ہوں تو وہ بچوں کی تربیت کے اس اہم پہلو پر خصوصی توجہ دیں لیکن افسوسناک صورت یہ ہے کہ ہمارے عام گھروں میں بھی اخلاقی قدروں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ اکثر والدین بچے کی جسمانی صحت کیلئے تو ہر ممکن کوشش کرتے ہیں مگر ان کی اخلاقی بہتری سے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔علاوہ ازیں بعض والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ذاتی بداخلاقیاں بچوں پر اثر نہیں کرتیں حالانکہ یہ ان کی غلط فہمی ہے والدین کا کردار بچوں پر اثرانداز ہوتا ہے یہ بات والدین کو ہمیشہ ذہن نشین رکھنی چاہیے۔
 
بچوں کو مارنے کے نقصانات
چوں کو مارنے پیٹنے سے وہ بہت سی بری عادات کا شکار ہوجاتے ہیں علامہ ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جسمانی سزا سے بچے کو جھوٹ کی عادت پڑتی ہے اور وہ سزا سے بچنے کیلئے مکرو فریب اور چالاکی و عیاری کو کام میں لاتا ہے۔ یہ بری عادت روز بروز بڑھتی چلی جاتی ہے اور بچے کی زندگی کو تباہ کردیتی ہیں۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ والدین چھوٹے بچوں پر تشدد نہ کریں کیونکہ اس سے ان کی طبیعت بجھ جاتی ہے اور زندگی سے خوشی و امنگ ختم ہوجاتی ہے۔ سزا سے بچے کی ذہنی نشوونما رک جاتی ہے اور حصول علم کا جذبہ ٹھنڈا پڑجاتا ہے اس کی طبیعت میں غیرت‘ حمیت اور مدافعت کے جذبات ختم ہوجاتے ہیں غرضیکہ انسانیت کا کوئی جوہر بچے میں باقی نہیں رہتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بچوں کو مارا نہ جائے تو پھر آخر کیسے ان کی بری عادات کو ختم کیا جائے؟ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس سلسلے میں تدریجی عمل اختیار کیا جائے وہ جن درجات کا تعین کرتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں: اگر کوئی بچہ برا فعل کرے تو پہلے پہل چشم پوشی سے کام لیا جائے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ فعل اس سے لاشعوری طور پر سرزد ہوگیا ہو۔٭ اگر بچہ پھر وہی فعل کرے تو اشاروں میں بالواسطہ سمجھادینا چاہیے ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے فعل پر نادم ہوجائے۔ ٭ اگر وہ بار بار اسی غلطی کا ارتکاب کرے تو اسے علیحدگی میں یہ بات سمجھائی جائے کہ اس کا یہ فعل ناپسندیدہ ہے اور اسے ترک کرنے میں اس کی بہتری ہے۔ اگر وہ پھر بھی اپنے فعل سے باز نہیں آتا تو اس کے ساتھیوں کے سامنے اس کی نشاندہی کی جائے اور اسے تنبیہہ کی جائے اگر اس کے باوجود بھی راہ راست پر نہیں آتا تو اسے زیادہ سے زیادہ تین چھڑیاں لگائی جائیں۔
 بچوں کو محض نصیحت کردینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ ضروری ہے کہ والدین خود اخلاق و اعمال کے بلند درجے پر فائز ہوں بچوں کو جھوٹ‘ چغلی‘ حسد‘ بغض‘ دھوکہ فریب کی عادت اس لیے پڑتی ہے کہ انہوں نے والدین کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے اور ایک مرتبہ نہیں۔۔۔۔ بکثرت دیکھا ہے والدین بچوں کو ان عادات سے کیسے روک سکتے ہیں جبکہ خود وہ بچوں کے سامنے ایسا کرتے ہیں۔
 بچے ساری زندگی والدین کو اسلام کی تعلیم کے بخیے ادھیڑتے ہوئے دیکھتے ہیں اور خود بھی ساری زندگی ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں والدین خود کامل ایمان والے ہوں گے تو بچے بھی کامل ایمان والے پیدا ہوں گے تاریخ گواہ ہے کہ نیک اور متقی والدین کے گھر ہی نیکوکاروں  نے جنم لیا ہے یہ اور بات ہے کہ اللہ کسی فاسق وفاجر کے بیٹے کو ہدایت سے نواز دے مگر یہ اللہ کی سنت نہیں ہے قدرت ہے جس کے تحت وہ ایسے معجزے دکھاتا ہے۔
 خلاصہ کلام یہ ہے کہ بچوں کی تربیت والدین کی نہایت اہم ذمہ داری ہے والدین پر لازم ہے کہ بہترین تربیت کے ذریعے بچوں کو کامل مومن اور معاشرے کا مفیدر کن بنائیں۔ ایک بات یادرکھیں کہ اگر کوئی والدین خود دین پر عمل نہیں کرتے خود گنہگار ہیں تو ان کے بچے بھی ایسے ہی ہوں گے اور اس سے آئندہ نسلیں تک تباہ ہوجائیں گی اور اس کا وبال انہی والدین پر ہوگا۔

بچوں کی تعلیم و تربیت


بچوں کی تعلیم میں والدین کی ذمہ داری بہت اہم ہیں ۔ بچے کے ہر لمحہ پر نظر رکھنا اور تربیت کرنا ضروری ہے۔

کسی فارغ لمحے ہم بچے کو پاس بلاسکتے ہیں نرمی اور محبت سے اس عادت کا اس سے ذکر کریں اور اسے بتائیں کہ آئیے مل کر اس عادت سے چھٹکارا حاصل کریں۔ اگر بچہ دست تعاون دراز کرے تو کام آسان ہوجائیگا۔

عادات سے مراد ایسی باتیں ہیں جو ہمارے اندر رچ بس جاتی ہیں اور پھر ان کو بدلنا دشوار ہوجاتا ہے۔ نوجوانوں کی طرح بچے بھی اچھی یا بری باتیں اپنا لیتے ہیں اور جب ہم چاہتے کہ بری عادت والا بچہ اچھی عادت اپنالے تو ہمیں کامیابی نہیں ہوتی۔

اب دیکھئے ناخن کاٹنا یا بے ہنگم طریقے سے چلنا کوئی سماجی برائی نہیں تاہم ان عادات کی حوصلہ افزائی بھی تو نہیں کی جاسکتی اسی طرح دوسری عادات ہیں مثلاً دوسروں کے سامنے ڈھور ڈنگروں کی طرح کھانا‘ سب کے سامنے زور زور سے ناک صاف کرنا‘ یہ سماجی برائیاں ہیں‘ ان کو دور کرنا ضروری ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہم اس میں کس طرح کامیابی حاصل کرسکتے ہیں؟

یقینا اگر کسی برائی کو شروع سے ہی پکڑلیا جائے تو اسے دور کرنا آسان ہوجاتا ہے مگر اس کی طرف ہم مطلقاً توجہ نہیں دیتے اور اگر توجہ دیتے بھی ہیں تو یہ عادات جبر سے چھڑانا چاہتے تو کوئی مشکل بات نہیں ہے مگر اس کیلئے خوب سوچ بچار کرنی پڑے گی اور مسئلہ پر خوب غوروخوض کرنا ہوگا۔ عادت کی نوعیت کو جاننا ہوگا۔ جائزہ لینا ہوگا کہ بچے سے اس عادت کو دور کرنے کیلئے ہم نے کیا کیا اقدامات کیے ہیں اگر ہمیں کامیابی نہیں ہوتی تو ہمیں کیا کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔

جب بچے ذرا بڑے ہوجائیں تو بجائے اس کے کہ ہم ڈانٹ ڈپٹ کرکے ان کی بری عادات کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ بہتر یہ ہوگا کہ ان سے دوستانہ ماحول میں بات چیت کی جائے۔

کسی فارغ لمحے ہم بچے کو پاس بلاسکتے ہیں نرمی اور محبت سے اس عادت کا اس سے ذکر کریں اور اسے بتائیں کہ آئیے مل کر اس عادت سے چھٹکارا حاصل کریں۔ اگر بچہ دست تعاون دراز کرے تو کام آسان ہوجائیگا۔ اس کیلئے ہمیں خود بھی اپنی عادات کو بدلنا ہوگا ورنہ ہمارا وعظ و تلقین بالکل غیر موثر ہوکر رہ جائیگا۔

ایک شخص نے اپنی بچی کے ساتھ پروگرام بنایا کہ اگر ان میں سے کوئی پارلیمانی زبان استعمال کرے تو دوسرا اسے ٹوک دے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوتا رہا اور اس کا خاطر خواہ فائدہ ہوا۔ تجارت اور خریدوفروخت میں بھی اگر اس امر کو مدنظر رکھا جائے۔ یعنی ایک دوسرے کو ٹوک دے تو دوسرے کی اصلاح ہوتی ہے اور یہ ایک بڑی سماجی خدمت ہے۔ اگر بچوں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ ہماری غلطیوں سے بھی ہمیں آگاہ کرتے رہیں۔ تو بچے کبھی بھی یہ تاثر نہیں لے سکتے نہ لیں گے کہ ان کو خواہ مخواہ ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی رہتی ہے اور انہیں موقع ہی نہیں دیا جاتا۔

ایک شخص نے گندی زبان استعمال کرنے سے بچنے کی ایک انوکھی ترکیب نکالی۔ اس نے بچوں کو بھی سمجھایا کہ عام محفل میں کبھی گندی زبان استعمال نہیں کرنا ہوگی۔ ہاں عادی ہونے کی وجہ سے اگر کوئی لفظ زبان پر آجائے تو فی الفور ’’چھکڑے‘‘ کا غلط استعمال کرو۔ اس طرح سب سے پہلے اس نے غصے کے موقع پر یہی لفظ استعمال کیا مگر اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پورے خاندان میں سے یہ عادت جاتی رہی۔


اس سلسلہ میں خاموش مزاح بھی بڑا فائدہ مند ثابت ہوا ہے مثلاً کوئی بچہ یا گھر کا کوئی فرد کھانا کھاتے وقت چپ چپ کی آوازیں نکالتا ہے یا کھانے پر مکھی کی طرح گرتا ہے‘ بچے سے یہ بری عادات چھڑوانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ خاندان کے لوگ ویسی آوازیں نکالنا شروع کردیں اور خود بھی اس کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑیں گے اور یقینا سب ہنس پڑیں گے اور بچہ زچ ہوکر اس بری عادت سے باز آجائے گا۔

آپ صدر دروازے پر اپنا ایک ایسا سکیچ چسپاں کردیں جس میں آپ درد کے مارے کراہ رہے ہوں۔ آپ کا بچہ جو دروازہ زور سے بند کرنے کا عادی ہے نفسیاتی طور پر متاثر ہوگا اور دروازہ آہستگی سے بند کریگا یا اگر آپ نہانے کے ٹپ پر یہ فقرہ لکھ دیں کہ گندے پانی میں نہانا کوئی اچھی بات نہیں۔ ضرور اثرانداز ہوگا اور بچہ پانی کوگندا نہیں کرے گا۔

اگر بچوں کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے تو بری عادات چھوڑنے کے سلسلے میں یہ چیز ان کیلئے بے حد ممدومعاون ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر بچے کو یہ احساس دلایا جائے کہ اب وہ اتنا بڑا ہوچکا ہے اسے یہ بات نہیں کرنی چاہیے تو اس کے نتائج بھی بہتر برآمد ہوسکتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر تین سال کے بچے کو بھی یہ کہا جائے بیٹے تم ابھی بڑے ہوچکے ہو ایسا نہیں کرنا‘ تو یقینا وہ اس سے اچھا اثر لے گا اور جو حرکت کررہا ہے اس سے کنارہ کشی کرلے گا۔

بچے کے ناخن کاٹنے کی کئی ایک وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ان میں بور ہونا یا کسی چیز کے حصول کیلئے بے تابی بھی ہے اگر اس کو مسئلہ بنالیا جائے تو اس کے الٹے نتائج بھی برآمدہوسکتے ہیں۔ اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ بچے کو ہاتھوں کی خوبصورتی کا احساس دلایا جائے۔ اسے بتایا جائے اس طرح خوبصورت ہاتھ بدصورت ہوجاتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ کسی بدمزہ چیز پر اچھا سا رنگ کرکے اسے کھانے کی نقل کی جائے تو اس سے بھی بچہ سمجھ جائیگا۔ ہاں ایک اور طریقہ یہ بھی ہے بچے سے کہا جائے ’’بیٹا سارے ناخن نہیں کاٹنے ایک چھوڑ کر باقی بے شک کاٹو اس کے بعد تعداد کو بڑھاتے جاؤ ‘ بچہ یہ عادت چھوڑ دیگا۔

بچوں میں ایک بری عادت بے ترتیبی کی بھی ہوتی ہے‘ کھلونے لیتے ہیں ان سے کھیلتے ہیں اور انہیں وہیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اسی طرح کپڑوں کا معاملہ ہے اگر تو بے ترتیبی بچے کی فطرت کا حصہ ہے تو اسے ختم کرنا مشکل ہے اس عادت پر بچے کو لعنت ملامت کرتے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں بچے کو اس کے حال پر چھوڑ دیں اور اس عادت پر نہ کڑھیں۔ اپنے آپ کو کسی کام میں مشغول رکھیں۔


بچے سے بری عادات چھڑوانا وقت چاہتا ہے اسے وقتاً فوقتاً نصیحت کرتے رہنا چاہیے مگر اس کے پیچھے پڑجانا مناسب نہیں۔ ناخن کاٹنے والے بچے کو یہ کہا جاسکتا ہے بیٹا تمہارے ناخن کس قدر خوبصورت ہیں مجھے یہ بڑے پیارے لگ رہے ہیں‘ اس طرح بچہ یہ عادت بھی چھوڑ دے گا۔

کپڑے یا کھلونے بچہ بے ترتیبی سے ادھر ادھر رکھ دیتا ہے تو سمجھانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کہا جائے۔ ’’واہ واہ یہ کپڑے کتنے خوبصورت اور صاف ستھرے ہیں یا کھلونے کیسے پیارے ہیں ان کو ترتیب سے صاف جگہ پر رکھنا چاہیے آپ خود انہیں ان کی جگہ پر رکھ دیں تو بچہ اس سے سبق حاصل کریگا اور اپنی یہ عادت بدل لے گا۔

کالی مرچ کے فوائد

دنیا میں کوئی بھی چیز رائیگاں نہیں ہے ہر چیز میں اﷲ تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی افادیت ضرور رکھی ہے اسی طرح کالی مرچ جو د...